Breaking News

امریکن آنٹی کا یارانہ

امریکن آنٹی کا یارانہ


لائبہ سکول و کالج میں والی بال، ٹینس بال اور رسہ کشی کی اچھی پلیئر تھی۔ کئی  
میڈل اور ٹرافیاں گھر کے شوکیس کی زینت بنائی۔ موٹی تازی اور شرارتی لائبہ کی
 (FSc) شادی کی بات
کے فورا بعد لائبہ سے پندرہ بیس سال بڑے بندے سے پکی کرا دی گئی۔
  
لائبہ نے بتایا کہ اسے ابھی یونیورسٹی جانا تھا، کھیلوں کے بڑے مقابلے جیتنے تھے، اور پھر آرام سکون اور من پسند کی شادی کرنی تھی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔
شادی رکوانے کیلئے احتجاج پر والد نے خوب درگت بنائی اور اپنی بات سے ایک سوتر پیچھے نہ ہٹے۔

شادی ہوئی تو سب کچھ بھول بھلا کر میاں کے ساتھ خوشی کی زندگی جینے لگی۔ ہلکی پھلکی نوک جھونک  ہوتی رہتی مگر جلد میں صاحب کو منا لیتی۔ اللہ تعالیٰ نے دو بیٹوں سے نوازا تو یہی کل جہاں ہوئے۔ 
شادی کے بعد تین چار مرتبہ امریکہ سے واپس اپنے وطن پاکستان بھی کچھ دنوں کیلئے آتے رہے، بچوں اور میاں کی چھٹیاں ختم ہونے پہ واپس امریکہ چلے جاتے۔

لائبہ اور میرا تعارف فیس بک کی ایک پوسٹ کی کمنٹس میں تھو تکرار سے ہوا۔ بات آگے بڑھی تو کمنٹس کے بجائے انبکس میں بحث شروع ہو گئی۔ کچھ دیر جب دونوں جانب سے نہ بن پائی تو بات جوں کی توں چھوڑ دی۔ 
اچھی خاصی مغز ماری کے بعد اس اس کے اکاؤنٹ کی چھان بین کرتے ہوئے پہلے تو مجھے وہ آئی ڈی فیک لگی۔ ( لڑکے بعض اوقات لڑکی کے نام سے فیک آئی ڈی بنا کر دوستوں کو تنگ کرتے ہیں)۔

دوسری جانب محترمہ نے بھی میری پروفائل کھنگال ڈالی؛ کچھ دیر بعد پھر سے میسج کیا، اب دونوں کے سر سے بلا ٹل چکی تھی۔
باوجود میری پروفائل چیک کرنے کے، میرا تعارف پوچھا، میری بیس سالہ عمر جان کر وہ تھوڑی مایوس ہوئی، اور ریلیشن و انٹرسٹ معلوم ہونے پر مکمل پریشاں۔ 

 ادھر چراغوں میں روشنی تب نہ رہی، جب مجھے معلوم ہوا کہ محترمہ کے دو بچے میرے ہم عمر ہیں۔ اماں عمر کی پنتالیس سالہ لائبہ شادی کے بعد سے دو بیٹوں اور خاوند کے ہمراہ امریکہ کی رہائشی و سکونی ہیں۔ 

اوائل ملاقات دلچسپ تھی، سو عمر کے تقاضے ایک سائیڈ پہ رہے اور دوستی کی بندھن پکی ہوئی۔
میں انہیں خالہ کہتا اور وہ مجھے پتلو۔ 

ایک شام کال لگی تھی، محسوس ہونے پہ پتہ چلا وہ کچھ اشارتاً اور زومعنی گفتگو میں پٹری سے اترنے لگی؛ اس سے پہلے کہ جذبات شدت کو پہنچتے، بات روک دی اور ہوش سنبھالنے کی کوشش کی۔
بعد ازیں دو ٹوک موقف پیش کرتے ہوئے حدود طے کیے، اور دوبارہ جذبات گرمنے سے بچنے کیلئے اصول وضع کیے۔ 
کچھ دن خیر رہی، اس دوران تعلق گہرا اور  پختہ ہوا۔ ماحول بننے پہ ایک دن ہمت کی اور گھریلو حال احوال پوچھا؛ لائبہ نے ٹھنڈی سانس لی اور بتایا،
" کورونا کے دوران حفاظتی اقدامات کے تحت ہم میاں بیوی اور بچے گھر کے الگ الگ کمروں میں رہنے لگے، کورونا وائرس کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ  ہماری جنسی ضرورت بھی بڑھنے لگی، ایک دو مرتبہ خواہش ظاہر  کی تو میاں نے روک دیا۔
 دن، ہفتے اور مہینے گزرتے گئے، کورونا کا زور بھی ٹوٹ گیا، مگر نہ ٹوٹی تو اپنی جنسی خواہش نہ ٹوٹی۔"

لائبہ نے بتایا کہ "کئی مرتبہ نفس نے گناہ کیلئے بھی اکسایا، مگر وعدہ عشق، حرمت نکاح اور خوف خدا نے مگر روکے رکھا۔"

کہتے ہیں پانی اور لاوا اپنا راستہ خود بناتے ہیں۔ انہیں اگر صحیح طریقے سے مینج نہ کیا جائے تو پانی سیلاب اور لاوا آگ کی شکل اختیار کر کے بہت نقصان کرتا ہے۔
میں نے پوچھا تو نہیں،مگر شاید تسکین دل کی خاطر وہ خود ہی کچھ کرتی ہوگی۔۔۔۔۔
میری منہ میں خاک۔

لائبہ نے بتایا کہ جنسی خواہش کو رفع کرنے اور گناہ سے بچنے کیلئے وہ کئی مرتبہ خود کو ہاتھوں اور بازوؤں پہ جلا چکی ہیں؛ اس جلنے جلانے کے عمل سے شوہر باخبر رہے، مگر وہ اللہ میاں کے گائے ٹس سے مس نہ ہوئے۔

لائبہ کے مطابق غلطی ان کے میاں کی  نہیں، وہ دن بھر روزی روٹی کی تلاش میں کنسٹرکشن کا کام کرتے ہیں، اور رات ان کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کی عمر بھی ساٹھ سال سے اوپر ہے۔ اب اس عمر میں وہ گھر چلائے یا ۔۔۔۔۔۔۔۔

لائبہ اپنا اچھا وقت گزارنے کیلئے ایک سکول میں کام کرتی ہیں اور بچوں کی جمع پونجی کیلئے ایک آدھ مزید ڈیوٹی بھی۔
 اپنی صوم و صلوٰۃ کی مکمل پابندی کرتی ہیں اور رب سے اگلے جہاں میں بہتری مانگتی ہیں۔

پنتالیس سالہ لائبہ عمر کے اس حصے میں بھی نہایت معصوم، کمزرو دل اور سچی محبت کی شیدائی تھی۔ کئی مرتبہ مجھ سے لڑی، یہاں تک کہ کئی مرتبہ مجھے بلاک بھی کیا، مگر نجانے کیوں پھر آن پہنچتی۔ 

اپنے شوہر سے ناامیدی اور خشک دلی کا یہ عالم تھا کہ ایک روز  بات کرتے ہوئے لائبہ مجھ سے کہتی ہے کہ میں دعا کرتی ہوں اللہ جنت میں ہم دونوں کو ایک ساتھ رکھے۔
اس نے بتایا کہ میں شوہر سے بھی کہ چکی ہوں کہ اللہ جنت میں میرا تیرا ساتھ کبھی نہ کرے۔

لائبہ کے بڑے بیٹے سے بھی ایک مرتبہ میری بات ہوئی، وہ اردو سمجھ لیتا ہے مگر بولنے میں تھوڑی دشواری کا سامنا رہا۔ علاؤہ ازیں اپنے شوہر اور چھوٹے بیٹے کو بھی میرا بتایا تھا۔

مغرب میں خاندانی نظام کی تباہ کاری پہ بات کرتے ہوئے لائبہ نے سب سے پہلے اپنے گھر کی مثال دی، اور پھر کچھ چشم دید واقعات سنائے، جن میں ایک درج ذیل ہے؛
لائبہ نے بتایا کہ ان کے پرانے گھر کے سامنے ایک پاکستانی فیملی رہتی تھی، وہ لوگ بہت پہلے امریکہ شفٹ ہوئے تھے، مگر اپنا ذاتی گھر نہ لے سکے اور کرائی کے مکان میں رہتے تھے۔ اسی مکان کے اوپر منزل پہ مالک رہتا تھا۔ بقول لائبہ کے، وہ فیملی اپنا آدھا کرایا بچانے کیلئے اپنی جوان بیٹی کو رات مالک مکان کے پاس اوپر منزل پہ بھیجتے تھے، جو کہ ساری رات اس انگریز کے پاس ہوتی اور صبح کو گھر واپس آتی۔ لائبہ نے کئی مرتبہ اسے آتے جاتے دیکھا۔ واللہ اعلم

لائبہ ذہنی دباؤ اور دیار غیر میں اکیلے پن کا شکار تھی۔ خاوند دن کا تھکا ہارا، بوڑھا یا بیمار جبکہ بچے اپنی موج مستی میں مشغول رہتے۔  سکول کے بعد وہ سارا وقت اپنے کمرے میں گزارتی۔

پاکستان نہ آنے کی وجہ بتائی کہ ان کی تین بہنیں شادی شدہ ہیں اور الگ الگ شہروں میں رہتی ہیں، بھائی کوئی نہیں اور والدین دنیا سے کوچ کرگئے۔ 

میں یہ ساری افسوس ناک اور پریشان کرنے والے واقعات سنے کے بعد ہمدردی کا مارا پھنسا رہا۔ اپنی طرف سے دم دلاسے اور امید کی کرنیوں کی نویدیں سناتا رہا، مگر ایک پڑھے لکھے، سمجھدار اور تجربات سے گزرے شخص کو سہراب نہیں دیکھایا جا سکتا۔ ہماری Generation Gap, Different Experience And Opposite Interest کی وجہ ہم میں ذہنی ہم آہنگی پیدا نہ ہوسکی۔ یہ تعلق مہینہ بھر ہی رہا، ایک دن کسی بات پہ وہ دل برداشتہ ہوئیں اور رابطہ منقطع کر دیا۔ تب سے لے کر آج تک بات نہیں ہوسکی۔ 
خدا خبر اس وقت لائبہ کہاں اور کیسی ہوگی۔

میاں بیوی کی عمر میں زیادہ فرق ہونا، ایک دوسرے کو سپورٹ نہ کرنا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال نہ رکھنا خاندانی نظام کی تباہی کا باعث بنا۔

نکاح اور شادی ایک عمرانی معاہدہ ہے، جس کے زریعے دو لوگ آپس میں رفیق حیات بنتے ہیں۔ یہ رشتہ تب تک کامیاب رہتا ہے جب تک عمرانی معاہدے کے اصول و ضوابط اور آپس میں محبت قائم ہو۔
 برعکس اس کے گھروں میں بغاوت اور دھوکہ دہی جنم لیتی ہے، جس کی  مثال معاشرے میں طلاق کی شرح سے اور فلاں کے فلاں کے ساتھ منہ کالا کرنے کی خبروں سے معلوم ہوتی ہیں۔





ازقلم۔ عمیر خان آباد
umairkhanabad@gmail.com
03185284685

No comments