Breaking News

سمبھل کے چل کہ تجھے سارا جہان دیکھتا ہے

فرسٹ ڈے ان یونیورسٹی میری ملاقات رضوان مہمند سے ہوئی، ہم کلاس ڈھونڈتے ڈھونڈتے دیار غیر یعنی کسی اور ڈیپارئمنٹ پہنچے اور میڈیا سٹڈی کے بجائے آرکیالوجی کے لیکچرز سن کے پریشان ہوئے۔ کچھ وقت بعد اپنے کلاس فیلوز سے ملاقات ہوئی۔



پہلے دن رضوان نے سفید شلوار قمیض اور بلیک کلر پشاوری چپل پہنے تھے۔ باوز فولڈ تھے اور بجائے ماکس پہنے کے چہرے سے امید کی روشنی چمک رہی تھی۔ 
مجھ خالص پٹھانوں کے لہجے میں اردو بولنے لگا تو میں نے کہا "آشنا پختو وائیا"۔
رضوان شروع میں شرارتی لڑکوں کے مزاق کا نشانہ بنا، وجہ یہ تھی کہ جب ٹیچرز کلاس میں انٹروڈکشن پوچھتے تو رضوان ایک حفظ کیا ہوا سبق شروع کرتا۔
 ملا حظہ ہو،
" میرا نام رضوان اللہ مہمند ہے، میرا تعلق سابق فاٹا مہمند سے ہے۔ ہمارے علاقے میں پیچھلے تقریباً بیس سال جنگ ہے، جس کی وجہ سے وہاں کوئی ترقی کا نام و نشان نہیں۔ ہمارے خاندان کے بہت سے لوگ دھماکوں میں شہید ہوئے۔
میں میڈیا سٹڈیز میں اس لئے آیا ہوں تا کہ میں اپنے علاقے اور لوگوں کے حق میں آواز بلند کر سکوں"۔

کلاس فیلوز کو رضوان کے جارحانہ انداز اور گلابی اردو پہ ہنسی آتی، رضوان درد بیان کرتے ہوئے جب لڑکوں کو ہنستا ہوا دیکھتا تو اس کا خون کھولنے لگتا اور بحث( زبانی جنگ) شروع ہو جاتی۔

مجھے شروع سے رضوان دلچسپ لگا۔ دیہاتی مزاج، تعصب بھرا مگر محب وطن، لکھنے پڑھنے کی شوقین، کچھ نیا کرنے کا عزم، روایات کا درس، صوم صلات کی پابندی اس کا خاصا ہیں۔

یارانہ جب پکا ہوا اور دل کے تار جڑنے لگے تو سردیوں کی دھوپ سے محظوظ ہونے کیلئے یونیورسٹی کے چمن میں بیٹھتے۔ اور دیر تک گپ چلتی۔
 نئے نئے ایڈمیشن ہوئے تھے۔ لڑکے لڑکیاں کیا خوب بن سنور کے آتے۔ کوئی جینز لگے چلتا، کوئی بال بکھیرے گھومتی، کوئی ٹائیٹ پاجامہ اور دوپٹہ گلے میں ہونا تو عام بات ہے وغیرہ وغیرہ۔

رضوان انہیں دیکھ لاحول ولاقوۃ پڑھتے مجھے کہتا یار یہ لوگ کس لئے یونیورسٹی آتے ہونگے؟
ان کے پڑھائے کا مقصد کیا ہوگا؟
ان کے والدین کیسے انہیں یہ واہیات پہنے گھر سے رخصت کرتے ہیں؟
کیا یونیورسٹی انتظامیہ بھی انہیں نہیں روکتی؟
 وغیرہ وغیرہ

مجھے رضوان کے سوالوں پہ تعجب نہیں ہوتا تھا، وہ جس علاقے سے تھا وہاں اسے لباس اور کھلم کھلا رواج نہیں۔ رضوان وہاں سے ایک بڑا مقصد لیئے آیا۔ جبکہ یہاں بہت سوں نے صرف ڈگری لینی ہوتی ہے اور کچھ رواجا یونیورسٹی آتے جاتے ہیں۔

وقت گزرتا گیا، دوستوں کا شغل بھی پرانا ہوا اور کچھ رضوان کی طبیعت بھی تبدیل ہونے لگی۔ وہ سمجھنے لگا کہ "سات رنگی دنیا میں بقاء کیلئے مختلف رنگوں میں ڈھل کر اپنا رنگ دیکھانا ہوگا"۔
 فری ٹائم مجھے لے کر الگ بیٹھتا اور سوالات کرتا، میں اس کے مزاج سے واقف تھا، اسی لئے رضوان کے سامنے مکمل سیکولر پوائنٹ آف ویو رکھتا۔ کچھ باتوں میں اختلاف بھی آ جاتا لیکن بات وہ ذہین نشین کر لیتا۔

بات ہورہی تھی دو سال پہلے کے رضوان کی۔
آج کا رضوان اللہ مہمند یکسر مختلف ہے۔ اس کا بحث کرنے کا انداز، کو ایجوکیشن ایکٹیوٹی، لائف سٹائل ( ڈریسنگ وغیرہ) اور مائنڈ سیٹ ایسا بن گیا کہ وہ ہر جگہ ہر قسم اور ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ برابر بیٹھ کے گفت و شنید کر سکتا ہے۔
وہ اختلاف بھی کریگا اور بات بھی مانے گا۔

میں فرینڈز ویلفیئر ایسوسی ایشن اور یونیسکو کے کچھ پروگرامز میں ضلع مہمند کے بہت سے علاقوں کا دورہ کر چکا ہوں۔ ضلع مہمند میں سکول، ہسپتال، بازار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ضرورت بہت کم ہے۔

مہمند کا زیادہ تر حصہ خشک اور پھتریلا ہے۔ پہاڑوں پہ نہ گھاس ہے کہ درخت۔ سابق فاٹا مہمند دہشتگردی اور خاندانی جھگڑوں کا نشانہ بنا رہا۔ لوگ کم پڑھے لکھے اور مزدور دار ہیں۔ مہمند میں وسیع پیمانے پہ قیمتی پتھر موجود ہیں۔ پسماندگی کی وجہ سے باہر کے لوگ آ کر کم قیمت پر سادہ لوح عوام کو لوٹتے ہیں اور انہیں سستے لیبر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔حکومت کی توجہ بھی برائے نام ہے۔

رضوان اللہ مہمند انہی خستہ حال لوگوں کے دکھوں اور دردوں کا درمان بنے کیلئے صحافت کے شعبے میں آیا۔ 

اس وقت ہماری کلاس اور ڈیپارٹمنٹ میں رضوان کا شمار ان چند طلباء میں ہوتا ہے جو پڑھائی کے ساتھ ساتھ میڈیا میں ایکٹیو جرنلسٹ کے طور پہ کام کر رہے ہیں۔

میں نے تقریباً سال پہلے رضوان سے کہا تھا کہ وہ یوٹیوب چینل اور فیس بک پیج بنائے، علاقے اور دیگر مسائل اٹھا کر معاشرے کو اپنی خدمات پیش کرے۔
رضوان نے عمل کیا اور "سباوون" نام سے چینل شروع کیا۔ اس کے علاؤہ میڈیا ڈیپارٹمنٹ ہزارہ یونیورسٹی کے کیمپس ریڈیو ایف ایم 98.6 پہ پروگرام بھی کرتا رہا۔
وہ مہمند سٹوڈنٹس سوسائٹی کا صدر منتخب ہوا۔ رضوان نے ہزارہ یونیورسٹی کے تاریخ میں پہلی بار ایز آ پریزیڈنٹ مہمند سٹوڈنٹس سوسائٹی کی جانب سے سٹڈی سرکل منعقد کر کے نئی روایت کی داغ بیل بھی ڈالی۔

رضوان اللہ مہمند نے آج تھری پیس سوٹ پہنے کلاس میں انٹری دی تو میرے سامنے اس کے دو سالہ ماضی گزرا۔ خوشی ہوئی کہ بندے میں برداشت، قبولیت اور ہم آہنگی کے رنگ چڑھے۔

شاعری، موسیقی اور ادب و تاریخ سے دلچسپی رکھنے والا رضوان مستقبل میں میڈیا کا روشن ستارہ بن کے ابھرے گا۔ اور ملک وقوم کی خدمت اور مہمند و قبائل کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے گا۔

کنزرویٹیو مائنڈ سیٹ سے تھری پیس سوٹ تک سفر کرنے والے رضوان اللہ مہمند کو ان اشعار کے ساتھ نیک تمنائیں پیش کرونگا۔

پروں کو کھول زمانہ اڑان دیکھتا ہے۔
زمیں پہ بیٹھ کے کیا تو آسمان دیکھتا ہے۔
ملا ہے حسن تو اس کی حفاظت کر۔
سمبھل کے چل کہ تجھے سارا جہان دیکھتا ہے۔

ازقلم۔ عمیر خان آباد
#UmairKhanAbad
umairkhanabad@gmail.com

No comments